انداز جہاں: اسد ﷲ غالب
تین روز قبل میں نے بستر میں لیٹے لیٹے ریموٹ کے ذریعے ٹی وی آن کیاا ور پھر میں جست لگا کر اٹھ بیٹھا۔ میرے لئے یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا کہ 14برس قبل ایک ٹی وی چینل کے لئے میں نے ایم ایم عالم کے کارنامے پر 60سیکنڈ کامختصر سا اسکرپٹ لکھا اور اس پر ایک پیکیج تیار کروایا، اس ٹی وی نے اسے کئی برس تک یوم فضائیہ پر چلایا ا ور یوں سوشل میڈیا پر یہ وائرل ہو گیا۔ میں خود اسے کبھی کبھار فیس بک یا یو ٹیوب پر تلاش کر کے اپنی یادیں تازہ کرتا ہوں۔ اس بار 7 ستمبر کو کسی دوسرے ٹی پر یہی پیکیج چل رہا تھا۔ جھپٹنا ،پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا۔ پہلے 30سیکنڈ میں ایم ایم عالم نے سرگودھا کی فضاؤں میں تین بھارتی جہاز مارگرائے اور اگلے 30سیکنڈ میں باقی ماندہ دو بھارتی جہازوں کا تعاقب کر کے انہیں بھی راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ ایم ایم عالم کا یہ کارنامہ گنیز بک آف ریکارڈ کا حصہ بنا کیونکہ فضائی جنگوں کی تاریخ میں اس ریکارڈ کو مات نہیں کیا جا سکا۔نہ ایسا ریکارڈ کوئی اور ہوا باز بنا سکا۔ ایم ایم عالم کا نام سن کر ہمارے بچوں کی آنکھوں میں ایک الوہی سی چمک پیدا ہو جاتی ہے۔
اب میرا راہوار خیال لمبی جست بھر کر پچھلے سال 27فروری کی صبح تک پہنچ گیا ہے جب ہمارے بے خوف ہوا باز بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کابدلہ لینے کے لئے کنٹرول لائن کے پار گئے اور انہوں نے دشمن کے 5شانوں کو لاک کیا۔ لاک کرنے سے دشمن کو پتہ چل جاتا ہے کہ تباہی اس پر نازل ہو چکی مگر ہمارے ہوابازوں نے احتیاط برتی اور جنگ کا دائرہ محدود رکھنے کے لئے اردگرد راکٹ اور میزائل گر ادئے۔ شومی قسمت سے دو بھارتی طیاروںنے ہمارے ہوا بازوں کا تعاقب کیا ۔ جنہیں چشم زدن میں ہمارے دو ہوا بازوںنے مار گرایا، ایک بھارتی جہاز کا ملبہ کنٹرول لائن کے پار گرااوراس کا پائلٹ بھی ساتھ ہی بھسم ہو گیا، کشمیریوں نے اس الاؤ کے گرد کھڑے ہو کر خوشی سے ر قص کیا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ بھارت کا دوسرا طیارہ ہمارے علاقے میں گراا ور اس کا ہو اباز ابھی نندن زندہ پکڑا گیا، اسے مرہم پٹی کر کے چائے پلائی گئی اور پھر واہگہ کے راستے واپس بھجوا دیا گیا۔
مجھے سن 86ء کے وہ لمحات یاد آتے ہیں جب جموں ایئرپورٹ پر اسرائیلی طیارے جمع ہو گئے تھے کہ کہوٹہ کو اسی طرح ختم کر دیں جیسے انہوںنے عراق کے ایٹمی پلانٹ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی مگر پاک فضائیہ مقابلے کے لئے چوکس تھی ، اس کے جنگی جہازوں نے کئی روز تک کہوٹہ کی فضاؤں میں پہرہ دیاا ور یوں اسرائیلی طیارے بے نیل ومرام واپس جانے پر مجبورپر گئے۔
ممبئی سانحے کے بعد بھارت بپھرا ہوا تھا۔ اس نے ارادہ کیا کہ وہ پاکستان کے اندر سرجیکل اسٹرائیک کر کے لاہور میں چوبرجی مرکز قادسیہ اور مرید کے سنٹر راکھ بنا دے۔ بڑی طاقتوں نے بھی پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ بھارتی فضائیہ کو اپنے عوام کے اطمینان قلب کے لئے کسی ریگستان میں دو چار بم گرا لینے دیں مگر پاکستان نے اپنے شہبازوں کو فضاؤں میں بلند کر ادیا اہل لاہور بھی جانتے ہیں کہ چار دن تک ہمہ وقت ہمارے جیٹ طیارے فضائوں میں گرجتے رہے اور بھارتی طیاروں کاا نتظار ہی کرتے رہ گئے۔ بزدل دشمن کو وار کر نے کی ہمت نہ ہو ئی۔
پاک فضائیہ نے ہر دور میں بھارت کے دانت کھٹے کئے۔ اب بھارت کو زعم ہے کہ اس کے پاس پانچ رافیل آ گئے ہیں، افواج پاکستان کے ترجمان نے جواب میں کہا ہے کہ پانچ سو رافیل بھی لے آئو ۔ تمہیں میدان سے دم دبا کے بھاگنا پڑے گا.
دنیا کی کوئی لڑائی اسلحے کے زور پر نہیں ہوتی۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اسلحے کے پیچھے بیٹھا کون ہے، 65ء میں بھارتی فضائیہ کو عددی برتری تھی مگر اسے منہ کی کھانا پڑی اور پاک فضایئہ نے اسے گھس کے مارا۔ کارگل کی مختصر سی جنگ میں بھی بھارت نے اپنے جہاز ہمارے ماہر ہوابازوں کے ہاتھوں گنوائے۔
میں یہاں پاک فضائیہ کے مسیحی ہوا بازوں کو زبر دست خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں،۔ انہوں نے کمال حب الوطنی کا مظاہرہ کیا۔ ہوا باز سیسل چوہدری کا میں زبر دست مداح ہوں۔ ان کی وفات پر میں نے لاہور کے گورا قبرستان میں ان کے جنازے کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کی۔
پاک فضائیہ کو فنی بلندیوں تک پہنچانے میں ہر ایک کا کردار قابل ذکر ہے مگر قوم کو اصغر خان ا ور نور خان جیسے ہیرو کبھی نہیں بھولتے جنہوں نے ملک کی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
مستقبل کی لڑائی میں فضائیہ کا کردار محدود ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس کی جگہ میزائلوں نے لے لی ہے۔ اللہ کے فضل سے پاکستان اس شعبے میںخطے کی ہر طاقت کو چاروں شانے چت کر سکتا ہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا ثبوت گزشتہ برس 28فروری کی شب کو دنیا کے سامنے آیا جب بھارت نے ہماری سرحد پر براہموس میزائل نصب کئے تو ہم نے غوری اور شاہین تھری تک میدان میں اتار دیئے اور دنیا کا رنگ فق ہو گیا تھا۔اللہ جانے یہ قیامت کیسے ٹلی ورنہ آج دنیا کے نقشے پر کئی ممالک کا نام و نشان نہ ملتا۔ یہ ایک اعصاب شکن رات تھی اور و زیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس امتحان میں سرخرو نکلے۔ اس تجربے کو دیکھ کر اب کوئی احمق ہی پاکستان پر بری نظر ڈالنے کی جرات کر سکے گا۔
مجھے یہاں ملک کے ان صحافیوں، دانش وروں، کالم نویسوں اور اینکروں کی مذمت کرنی ہے جنہوں نے جنرل مشرف کے خلاف سیاسی لڑائی میں نشان حیدر راشد منہاس شہید کے بجائے بنگالی ہواباز کو ہیرو ثابت کر نے کی کوشش کی تھی، خدا ہر کسی کو ایسے اندھے تعصب سے محفوظ رکھے۔ سیاست اپنی جگہ اور ملک وقوم کا دفاع اپنی جگہ۔ اس کے لئے ہماری اور ہمارے ماں باپ کی جانیں حاضر ہیں۔