بیٹھک: سعید آسی
انصاف کی عملداری کا ایک اجلا چہرہ تو برطانوی وزیراعظم چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ضرب المثل بنے اپنے اس فقرے کے ذریعے دکھایا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو پھر ہمیں کسی سے کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ اور محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ کے یارغار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول تو عدل گستری کیلئے روشن مثال بن چکا ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں رہ سکتا۔ انصاف کی عملداری کی ایک اور مثال بھی ضرب المثل ہے کہ انصاف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ ہماری عدلیہ کے فیصلوں میں بے شمار ایسی مثالوں کے حوالے موجود ہیں اور انصاف کی عملداری پر زور دینے والے ہمارے فاضل منصف حضرات، آئینی اور قانونی ماہرین، دانشور اور سیاست دان بھی اس ضرب المثل فقرے کا ضرور سہارا لیتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔
ہماری عدل گستری میں انصاف کی جو عملی تصویر اپنے نین نقوش کے ساتھ پختہ ہو چکی ہے وہ جنگل کے بادشاہ کی اس کہانی پر مبنی ہے کہ اس نے اپنے کئے ہوئے شکار کے تین حصے بنائے اور پھر جنگل کی ساری مخلوق (چرند پرند) کو اکٹھا کرکے ان حصوں کی تقسیم کیلئے عدالت لگائی۔ خود ہی کیس پیش کیا اور خود ہی فیصلہ صادر کیا کہ ان میں ایک حصہ تو میرا اس لئے ہے کہ یہ شکار میں نے کیا ہے‘ دوسرا حصہ میرا اس لئے ہے کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں اور تیسرا حصہ آپ کے سامنے پڑا ہے‘ کسی میں ہمت ہے تو اٹھالے۔
اس تیسرے حصے پر بھی جنگل کے بادشاہ کی ملکیت اس کہانی کے ذریعے ثابت ہوتی ہے جس میں کسی نے ایک آدمی سے پوچھا کہ اگر اچانک آپ کے سامنے شیر نمودار ہو جائے تو آپ کیا کرینگے۔ اس آدمی نے مرجھائے ہوئے لہجے میں اور شیر کی موجودگی کا تصور باندھ کر کپکپاتی زبان کے ساتھ جواب دیا کہ حضور میں نے کیا کرنا ہے، جو کرنا ہے شیر نے کرنا ہے۔ تو حضور! ہم عدل گستری کے ایسے ہی ماحول میں انصاف کی عملداری کے گن گاتے یا متقاضی ہوتے ہیں۔ پاکستان کے ہر منصف اعلیٰ کا تو یہی تردد، تجسس اور عزم رہا ہے کہ انصاف کی مثالی عملداری قائم کی جائے۔ اس کیلئے کئی عملی اقدامات کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے اور کئی عملی اقدامات اٹھائے بھی جاتے ہیں جن کا ایک عدالتی رپورٹر کی حیثیت سے میں عینی شاہد بھی ہوں۔
انصاف کی عملداری کی گھن گرج تو بہت سنائی دیتی رہی ہے مگر ’’جنگل کے بادشاہ‘‘ کی ایک دھاڑ سب کا پتہ پانی کردیتی ہے۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں جسٹس مولوی مشتاق سے جسٹس افضل ظلہ‘ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال سے جسٹس سجادعلی شاہ، جسٹس ارشاد حسن خان سے جسٹس افتخار محمد چوہدری تک کی عدلیہ کی تاریخ تو میری آنکھوں کے سامنے مرتب ہوئی ہے اور انصاف کی عملداری کے بہت سارے معاملات سودوزیاں کو رپورٹ کرتے ہوئے عدالتی تاریخ کے رقم ہوتے ابواب میں میں نے اپنا حصہ بھی ڈالا ہوا ہے اور پھر جسٹس میاں ثاقب نثار سے جسٹس آصف سعید کھوسہ تک کے جوڈیشل ایکٹوازم (عدالتی فعالیت) کے عرصہ سے اب جسٹس گلزار احمد کے عہدِانصاف تک سربراہان عدل گستری کی جانب سے انصاف کی عملداری کے عزم کی کئی زندہ مثالیں بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ مگر پتہ نہیں جنگل کے بادشاہ والے انصاف کی عملداری کے تصور پر حضرت علیؓ اور چرچل کے انصاف کی عملداری کا تصور کب غالب آئیگا۔ کب ہم اس خواب کو حقیقت کے روپ میں ڈھلتا دیکھیں گے کہ…؎
رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رکا ہے سویرا
ہم تو بھائی صاحب اندھے قانون کی حکمرانی میں انصاف کی عملداری کا اجلا چہرہ دیکھنے کی لگن اور تڑپ میں یہی تصور باندھے بیٹھے ہیں کہ ’’لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے‘‘ مگر اس ’’شام‘‘ کی گہری ہوتی سیاہی تو چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اسکے باوجود میری رجائیت پسندی مجھے یہی کہنے پر مجبور کرتی ہے کہ…؎
ویسے تو دکھ ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
پھر بھی یہ عدل کی زنجیر ہلالی جائے
عدل زنجیر ہلانے کا ایک تازہ منظر بلوچستان کے اچکزئی سیاسی خانوادے کے ایک ’’سپوت‘‘ مجید خان اچکزئی کیلئے انصاف کی عملداری کی صورت میں سامنے آیا ہے تو میری ساری رجائیت پسندی دھڑام سے نیچے آگری ہے۔ محمود خان اچکزئی کے اس برادر خورد اور رکن بلوچستان اسمبلی نے تین سال قبل جون 2017ء میں کوئٹہ کے ایک بھرے بازار کے چوک میں ڈیوٹی پر مامور ایک ٹریفک سارجنٹ کو اداے بے نیازی کے ساتھ اپنی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر مار کر کچل دیا۔ یہ سارا منظر سی سی ٹی وی کے کیمرہ میں محفوظ ہو کر سوشل میڈیا کی زینت بن گیا اور پھر اچکزئی خاندان کی چیدہ چیدہ شخصیات نے مقتول ٹریفک سارجنٹ کے گھر جا کر اسکے لواحقین سے معافی مانگنے کی صورت میں مجید خان اچکزئی کے سرزد ہونیوالے جرم کا اقرار بھی کرلیا مگر کوئٹہ کی ماڈل عدالت نے اس کیس کی 3سال تک سماعت کرکے یہ قرار دیکر ’’جنگل کے بادشاہ‘‘ کو باعزت بری کر دیا کہ اسکے جرم کے ثبوت ناکافی ہیں۔ مجھے اس پر منوبھائی کی ایک نظم ’’احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر‘‘ بے ساختہ یاد آئی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی اس ایک پیرے کی کہانی نے تو میرے چودہ طبق روشن کردیئے کہ ’’پاکستان میں گھر بیٹھے ہی چالان کی سہولت سے مستفید ہونے کیلئے کیمرے کی آنکھ کافی ثبوت ہے مگر پورا بندہ کچل دیا جائے تو کیمرے کی آنکھ اسکے ساتھ انصاف کیلئے ناکافی ثبوت ہے۔ ارے بھائی صاحب! آپ خلقت کی جیتی جاگتی آنکھوں اور پھر اسے مشینی سی سی ٹی وی کیمرے کی شاطر آنکھ کے سامنے سرزد ہوتے ننگے جرم کے اور کہاں سے ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں۔ اس کیمرے کی شاطر آنکھ نے تو سانحہ ساہیوال میں ایک مخصوص فورس کی گولیوں سے ایک خاندان کے بھونے جانے والے منظر کو بھی محفوظ کرکے بطور ثبوت پیش کردیا تھا مگر جنگل کے بادشاہ کے سامنے سے اسکے شکارکا تیسرا حصہ کوئی اٹھا کر تو دکھائے۔ ایک معروف ٹی وی آرٹسٹ خوش شکل و خوش الہان خاتون نے لاہور ایئرپورٹ پر اپنے قبضے سے شراب کی دو بوتلوں کی برآمدگی کا کیس ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک بھگتا اور باعزت بری ہو کر ’’سپیڈی جسٹس‘‘ کے ڈنکے بجائے۔ حضور! جنگل کے بادشاہ کے انصاف میں شراب کی بوتل شہد کی بوتل بن جائے تو بھلا کسی کی مجال ہے کہ وہ دن کی سفیدی کو تاریک رات ظاہر کرنیوالی کہانی کو جھٹلائے۔ ہم اندھے قانون میں اجلے انصاف کے متمنی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے مجید خان اچکزئی کی بریت کے معاملہ کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لے لیا ہے تو میری رجائیت پسندی مجھے اجلے انصاف کے تصور میں بھی سرخرو دکھا رہی ہے مگر نہ جانے کیوں مجھے ساغر صدیقی کا یہ شعر کچوکے پر کچوکے لگائے جارہا ہے کہ…؎
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے